امریکی قانون سازوں، وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں اور مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں کی شرکت
رابطہ عالم اسلامی نے امریکی کانگریس میں پہلی بار بین المذاہب اور پالیسی سازوں کو رمضان کے تاریخی افطارپروگرام پر یکجا کیا
وائٹ ہاؤس کی سینئر مشیر: میں رابطہ عالم اسلامی کی عالمی سطح پر قیامِ امن کی کوششوں کو سراہتی ہوں۔
امریکی مسلم کمیونٹی کے رہنما:
یہ افطار پروگرام ایک مثبت تبدیلی اور اہم پیش رفت ہے جو مسلم کمیونٹی کے لیے امریکہ کے اہم ترین اداروں میں مؤثر کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
ڈاکٹر العیسیٰ:
مسلم کمیونٹیز ہر ملک کے آئین اور قوانین کا احترام کرتی ہیں، کیونکہ یہی حقیقی اسلامی تشخص کی عکاسی ہے۔
ڈاکٹر العیسیٰ:
دنیا بھر کے مسلمان اپنے وطن کے لیے فخر کا باعث ہیں، اور ان کا اخلاص اور مثبت رویہ اس کی بہترین مثال ہے۔
واشنگٹن:
رابطہ عالم اسلامی نے امریکی کانگریس میں رمضان المبارک کے پہلے تاریخی افطار کا انعقاد کیا، جس میں مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں، مختلف مذاہب کے نمائندوں اور دونوں سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں نے شرکت کی۔
یہ تقریب بین المذاہب ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل تھی، جو رابطہ عالم اسلامی کے عالمی مشن کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں مسلم امہ کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنا اور مشترکہ انسانی اقدار کے ذریعے عالمی امن اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنا ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسیٰ نے ایک خصوصی ویڈیو پیغام کے ذریعے شرکاء سے خطاب کیا۔انہوں نے اس تاریخی افطار کو امریکی معاشرے میں بین المذاہب دوستی، باہمی اعتماد اور اسلامی اقدار کے حقیقی تعارف کی ایک اہم کڑی قرار دیا۔ ڈاکٹر العیسیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ رابطہ عالم اسلامی، اپنے عالمی مذہبی اور سماجی پروگراموں کے ذریعے، اسلامی معاشروں اور دیگر برادریوں کے درمیان ہم آہنگی، رواداری اور مثبت تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ افطار میں غیر مسلم رہنماؤں کی شرکت کا بنیادی مقصد رمضان المبارک کے حقیقی پیغام کو اجاگر کرنا ہے۔ رمضان ہمیں اللہ کی نعمتوں کی قدر سکھاتا ہے اور ان لوگوں کی تکالیف کا احساس دلاتا ہے جو دنیا میں بھوک اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ مہینہ تقویٰ، ضبطِ نفس اور صبر کا درس دیتا ہے، جس کا اصل مقصد اللہ کی اطاعت میں استقامت پیدا کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں کہیں بھی مسلمان رہیں، انہیں اپنے ملک کے آئین اور قوانین کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے، کیونکہ یہی حقیقی اسلامی طرزِ زندگی ہے۔
انہوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ دنیا بھر میں مسلمان اپنے کردار، سچائی، مثبت طرزِ عمل اور حسنِ سلوک کے ذریعے اپنے وطن کے لیے باعثِ فخر ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری، سماجی یکجہتی اور بقائے باہمی کے فروغ میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے، اور قومی وحدت کو مزید مستحکم کرنا چاہیے۔ مزید برآں، انہوں نے نشاندہی کی کہ رابطہ عالم اسلامی ہمیشہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ مشترکہ انسانی اقدار کی پاسداری ناگزیر ہے، کیونکہ یہی اقدار معاشرتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، خصوصاً نفرت انگیز بیانیے اور تہذیبی تصادم کے نظریات کے سدِّباب کے لیے۔
وائٹ ہاؤس کی مذہبی امور کی سینئر مشیر، محترمہ پاؤلا وائٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی پیغام پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکہ کی بنیاد مذہبی تنوع اور رواداری پر رکھی گئی ہے، اور یہ اصول امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں واضح طور پر درج ہے۔
انہوں نے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد العیسیٰ کی عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں کو سراہا۔
انہوں نے مزید کہا: "میرے لیے آج کی اس شام یہاں موجود ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔ وائٹ ہاؤس میں مذہبی امور کا دفتر، جو صدر کے دفتر کے قریب ترین واقع ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر ٹرمپ مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب تعلقات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔"
تقریب میں شریک متعدد معزز شخصیات نے خطاب کیا اور رابطہ عالم اسلامی کے کردار کو سراہتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ تمام فریقین کو باہمی احترام، دوستی اور تعاون کے رشتے کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس موقع پر نمایاں مقررین میں مارگریٹ کیپلن (امریکی ایوانِ نمائندگان میں مذہبی قیادت کی نمائندہ)، ریپبلکن رکنِ کانگریس جو وِلسن (جنوبی کیرولائنا)، ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس اپریل مکلین ڈیلانی (مریلینڈ)، اور وائٹ ہاؤس میں مذہبی امور کی ڈائریکٹر جینیفر کورن شامل تھیں۔اس کے علاوہ مختلف مذاہب کے نمائندے، سفارتی شخصیات، امریکی کانگریس کے ارکان اور مسلم کمیونٹی کی کئی اہم شخصیات نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔متعدد شرکاء نے اس موقع کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ یہ افطار امریکی معاشرے میں مسلم کمیونٹی کے لیے ایک نمایاں اور مثبت تبدیلی کی علامت ہے، جو امریکہ کے اعلیٰ ترین اداروں میں مسلمانوں کے مؤثر کردار کو مزید مستحکم کرے گا۔