رابطہ عالم اسلامی نے حالیہ دنوں امریکی حکومت کی جانب سے اسلاموفوبیا اور عربوں کے خلاف نفرت کے خاتمے کے لیے قومی حکمت عملی کے اعلان کو اصولی طور پر خوش آئند قرار دیا ہے۔ یہ اقدام باہمی احترام اور مفاہمت کو فروغ دینے کی سمت ایک مثبت قدم ہے، جو مذہبی، نسلی اور ثقافتی تنوع پر مبنی معاشروں کے لئے بنیادی اقدار کی تقویت کا باعث بنے گا۔
رابطہ عالم اسلامی نے امریکی حکومت کے اس کردار کو سراہا جس نے اسلام اور عربوں کے خلاف بے بنیاد خوف اور نفرت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے حل کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ یہ تعصب صرف نسل پرستی اور بلاجواز نفرت پر مبنی ہے، جو مسلمانوں اور عربوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور امتیاز کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ رابطہ نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے کئی دہائیوں سے مسلم کمیونٹیز کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس میں عبادت گاہوں پر حملے، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانے جیسے واقعات شامل ہیں، جن کے نتیجے میں بے شمار بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
رابطہ نے اس بات پر زور دیا کہ تعصب کے خاتمے کو ترجیح دینے کا اصولی فیصلہ قابل ستائش ہے، لیکن اس کے مؤثر نفاذ کے لیے پختہ عزم اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ یہ حکمت عملی اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ رابطہ نے اس حوالے سے امریکی حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہاکہ وہ اس حکمت عملی کے نفاذ کے لئے امریکی مسلم کمیونٹی کے ساتھ ، بالخصوص شمالی اور جنوبی امریکہ کی اسلامی قیادت کی کونسل کے تعاون سے مزید بہتر بنائے، جس کا دفتر واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے اس موقع پر کہا: ”اسلام اور عربوں کے خلاف نفرت اور تعصب جو ان کے وقار سلامتی اور وجود کو نقصان پہنچارہاہے، یہ صرف مسلمانوں یا عربوں کے مسائل نہیں، بلکہ یہ نفرت معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچارہی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا، ”اس قسم کے اعلان کی بہت پہلے ضرورت تھی، تاہم دیر آید درست آید کے مصداق، یہ قدم قابل تعریف ہے۔ آج کے دور میں ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ مذہبی، نسلی اور ثقافتی تنوع کے حامل معاشروں کے سماجی ڈھانچے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ہم اس حکمت عملی کو ایک روشن امید کے طور پر دیکھتے ہیں، خاص طور پر ان مسلمانوں اور عربوں کے لیے جنہیں طویل عرصے تک نظر انداز اور امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے۔“
رابطہ عالم اسلامی اور مسلم علماء کونسل نے اس حکمت عملی کے کامیاب نفاذ کے لیے پالیسی سازوں، سول سوسائٹی، اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان مضبوط تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ایک بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم کے طور پر رابطہ عالم اسلامی، مذاہب، نسلوں، اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ اپنی عالمی مجالس اور مؤثر پروگراموں کے ذریعے رابطہ نے ہمیشہ ان اقدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جو سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں اور تمام افراد کی عزت و وقار کا تحفظ کرتی ہیں، چاہے ان کا عقیدہ یا پس منظر کچھ بھی ہو۔رابطہ نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ اس حکمت عملی کی تحت ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے جو اسلاموفوبیا کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات کا جائزہ اور روک تھام کے لئے کام کرے۔ دنیا بھر میں تقریباً دو ارب مسلمان ان رجحانات سے متاثر ہورہے ہیں جو عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے نقصان دہ ہے۔
ہمیں ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے جہاں نفرت کا وجود نہ ہو اور تنوع کو ایک قوت تصور کیا جائے،جیسا کہ پہلے یورپی کمیشن کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے خاتمے کے لیے ایک رابطہ کار کے تقرر کو ایک انقلابی قدم کے طور پر سراہا گیا تھا۔۔
Sunday, 15 December 2024 - 20:36