فورم کی صدارت کی دعوت پر مرکزی خطاب، جہاں انسان میں پیدا ہونے والے ایمان کے گہرے احساسات کا فکری اور فلسفیانہ جائزہ لیا گیا۔
یورپی نوجوانوں کے سب سے بڑے پلیٹ فارم سے جس میں تقریباً 10 لاکھ زائرین شرکت کرتے ہیں۔ڈاکٹر العیسی نے کہاکہ ریاستی قوانین اور ان کی معاشرتی اقدار آزادی کے حدود ہیں جہاں وہ آکر رک جاتی ہے۔
آپ نے تہذیبی تصادم کے نظریہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایمان سے محرومی ایسے نظریات کو جنم دیتاہے جس سے انتہاپسند نظریات پیدا ہوتے ہیں۔
وہ اقدار جو انسانوں کے درمیان اخلاقی مشترکات کی نمائندگی کرتی ہیں وہ ان کے اندر مذہبی احساس کی عکاسی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر العیسی
جب انسان ایمان سے عاری ہوتاہے جس نے اسے مخلوقات میں منفرد مقام دیا ہے تو وہ خود کو ایک مبہم اور لغو تشریح کے سامنے پاتاہے۔ ڈاکٹر العیسی
رابطہ اور دنیا بھر میں اس کی شراکت داروں نے تہذیبی تصادم کے نظریئے کے مقابلے میں تہذیبی اتحاد کا نظریہ متعارف کیا ہے۔ ڈاکٹر العیسی
ایمان سے عاری علم نے انسان کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی دوڑ میں لگادیا۔ ڈاکٹر العیسی
ریمینی:
ریمینی فورم جو دوستی کے فروغ کے لئے اطالوی حکومت کی میزبانی میں منعقد ہو نے والا یورپی نوجوانوں کا سب سے بڑا عالمی اجتماع مانا جاتاہے اور جس میں تقریباً 10 لاکھ زائرین سالانہ شرکت کرتے ہیں ، رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے فورم کی صدارت کی دعوت پر فورم سے مرکزی خطاب کیا جس میں بڑی تعداد میں نوجوان،مذہبی اور سیاسی شخصیات، دانشور ،ماہرین تعلیم اور یونیورسٹی کے طلباء نے شرکت کی ۔
آپ نے تقریر کا آغاز ایسے عالمی فورمز کی اہمیت کے ذکر سے شروع کیا جس میں اقوام کے درمیان قربت، مفاہمت اور تعاون کی اہمیت کے بارے میں آگاہی کو فروغ اور نفرت،تقسیم اور تنازعات وتصادم کے نظریات کے خاتمے میں معاون ہوں ۔
ڈاکٹر العیسی نے اپنے خطاب کے تناظر میں انسان میں موجود ایمان کے گہرے احساسات کو چھونے کی کوشش جو ہر انسان میں موجود ہوتے ہیں چاہے وہ ایمان رکھتا ہو یا نہیں۔اس میں حکمت کی منظق کا استعمال کیا جاتاہے جو انسان کو اس کے ایمان کی جبلت تک پہنچاتاہے جو اسے اس کے خالق پر یقین کی طرف رہنمائی کرتاہے جس نے انسان کو پیدا کرکے اس میں اقدار کو انسانی جبلت کے طور پر اس میں ودیعت کی ہیں۔
آپ نے مذہبی احساس کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے جو ہر انسان کی ایمانی قدر کی نمائندگی کرتاہے اور اس کے ذریعے ہمارے وجود کی اہمیت اورقدر محسوس کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ وہ اقدار جو انسانوں کے درمیان اخلاقی مشترکات کی نمائندگی کرتی ہیں درحقیقت وہ ہر انسان میں موجود مذہبی احساس کی عکاسی کرتی ہیں۔دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ہر انسانی روح میں ایمان کی جبلت ہے۔اگر کوئی شخص خالق پر ایمان لانے کی نفی کرے تو ہم اس سے کہیں گے آپ کے اندر جو انسانی اقدار موجود ہیں، وہ آپ کے پوشیدہ ایمان کے مرہونِ منت ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ انسانی تاریخ میں بہت سارےتنازعات اور فلسفے موجود ہیں مگر اس نے اخلاقی مشترکات بھی درج کی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ: ”ہم -اہل ایمان-اسے ایمانی فطرت کا نام دیتے ہیں اور دوسرے اسے انسانی اقدار کہتے ہیں، اور ہم-اہل ایمان- کو انہیں ”انسانی اقدار“ کہنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ انسانی اقدار خود بخود وجود میں نہیں آتی ہیں بلکہ کسی فاعل کے ذریعے تخلیق ہوتی ہیں اور وہ اس اکیلے خالق پر اندرونی ایمان ہے ، چاہے یہ ایمان اعلانیہ ہو یا انسانی روح کی گہرائیوں میں چھپاہوا ہو“ ۔
ڈاکٹر العیسی نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ انسان جب ایمان سے عاری ہوجاتاہے یا اس اندرونی ایمانی دافع اور آواز کو نظر انداز کردیتاہے جو اسے اخلاقی اقدار میسر کرتاہے اور دیگر مخلوقات سے اسے منفرد بناتاہے تو وہ خود کو ایک مبہم
اور لغو تشریح کے سامنے پاتاہے۔اور یہیں سے مادہ پرستی خود غرضی کی شکل میں اور منفی اور خطرناک نتائج کے ساتھ عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی میں انسان کے لئے خطرناک ثابت ہوجاتاہے۔
ڈاکٹر العیسی نے سموئیل ہنٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا تصاد م میں پیش کردہ تہذیبوں کے ناگزیر تصادم کے نظریئے پر سخت تنقید کرتے ہوئے خبردارکیا ہےکہ ایمانی احساس کے فقدان سے یہ نظریات جنم لیتے ہیں جو انتہاپسند نظریات کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ تہذیبوں کے تصادم کی ناگزیریت پر ہنٹنگٹن کی کتاب نے ایڈیشن کی تعداد اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کے حوالے سے ریکارڈ توڑ دیئے اور اس کے انتہاپسند نظریہ کو مشرق اور مغرب کے متعدد حلقوں نے سراہا اور اسے فروغ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی سوچ ان لوگوں کے اعتقاد سے میل کھاتی ہے جو انسانی فطرت سے دورہوچکے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ اپنے حقیقی مذہبی احساس سے دورہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر العیسی نے کہاکہ رابطہ اور دنیا بھر میں اس کی شراکت داروں نے تہذیبی تصادم کے نظریئے کے مقابلے میں تہذیبی اتحاد کا نظریہ متعارف کیا ہے۔ اور اقوام متحدہ نے حال ہی میں اس معاملے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے تہذیبی اتحاد کے لئے ایک بین الاقوامی تنظیم قائم کی ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے ایمانی جبلت پر اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہاکہ خالق اس جبلت کا پہلا مصدر ہے اور دین اس جبلت کے ساتھ آیا جس پر افراد اور معاشروں کی اخلاقی اقدار قائم ہیں جس کے بغیر انسان-خواہ کتنا ہی تعلیم یافتہ ہو -ایک جنگلی جانور میں تبدیل ہوجاتاہے۔
انہوں نے کہاکہ ”چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علم نے انسان کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے تک پہنچایا، لیکن ایمانی احساس یا دوسرے لفظوں میں مشترکہ انسانی اقدار کو آپ اس ایجاد میں نہیں پائیں گے جس میں انسانی وجود کو خطرات لاحق ہوں۔ تو ثابت یہ ہوتاہے کہ صرف اکیلا علم کافی نہیں ہے،ہمیں ایمانی احساس کی ضرورت رہتی ہے“ ۔
ڈاکٹر العیسی نے آزادی اور دوسروں کے جذبات کےاحترام کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ آزادی انسانی وجود کا بنیادی مسئلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ آزادی کا حقیقی مفہوم ریاستی قوانین اور ان کی معاشرتی اقدار کا احترام کرنا ہے جہاں وہ آکر رک جاتی ہے۔ آپ نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادی اور انتشار ، آزادی اور دوسروں کا احترام، آزادی اور قانون کا احترام اور آزادی اور معاشرتی راحت وآرام کے فرق کو سمجھاجائے ۔معاشرے میں اشتغال انگیزی اور انہیں دھوکہ دہی اور غلط معلومات کے ذریعے ان کی منفی ذہن سازی سے گریز کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ حال ہی میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز نے اس طرف توجہ دی ہے ۔انہوں نے ایسے اکاؤنٹ کو چیک کیا جنہوں نے آزادی کے مفہوم سے غلط فائدہ اٹھایا۔انہوں نے پہلے انہیں تنبیہ کی اور پھر انہیں بلاک کیا ہے۔
انہوں نے زوردےکر کہاکہ یہ ان پلیٹ فارمز کی اداہ جات کی جانب سے ایک مثبت پیش رفت ہے جہاں ان پلیٹ فارمز کے غلط استعمال سے خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر العیسی نے اپنے لیکچر کے تناظر میں بعض نامور مغربی مفکرین کے نظریات اور اقوال پر تجزیاتی تنقید کی جنہوں نے مذاہب اور فلسفہ کے موضوع پر نمایاں خدمات پیش کیں جن میں سب سے اہم معروف اطالوی محقق، فلسفی اور مذہبی شخصیت لویگی گیوسانی ہیں جنہوں نے اپنی مشہور کتاب ”مذہبی شعور“ میں معرفت کے بارے میں اور خصوصاً مذہبی معرفت کے بارے میں منفرد تصور پیش کیا ہے۔