اہل مذاہب اور ادیان کے درمیان ثقافتی روابط اور میثاق مکہ مکرمہ کے مندرجات کو فعال کرنے پر شرکاء کا اتفاق۔
رابطہ عالم اسلامی نے حرم شریف کے سائے میں ایک تاریخی فورم میں تمام عراقی مراجع کو ایک ساتھ جمع کیا ۔
شرکاء کی طرف سے پرامن بقائے باہمی،تہذیبی مکالمےکے فروغ اور عالمی سطح پر اور خصوصاً عراق میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کے سدّباب کے لئے خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کے اقدامات کو خراج تحسین۔
عراقی مراجع کی طرف سے ڈاکٹر العیسی کی طرف سے مسالک اور مراجع کو قریب لانے کے لئے فورم کے انعقاد پر ان کی کوششوں کے اعتراف میں اعزاز۔
اہل سنت اور شیعہ کے مابین برادرانہ اتفاق رائے ،تعاون اور مکمل یکجہتی ہے۔ ڈاکٹر العیسی
اس مقدس سرزمين پر دین ،مشن، اقدار اور اہداف کے رشتوں کا ملاپ ہوتاہے۔ڈاکٹر العیسی
نفرت انگیزفرقہ واریت کو سب مسترد کرتے ہیں ،یہ دوسروں سے زیادہ خود پر وبال ہے۔ڈاکٹر العیسی
اس طرح کے اقدامات قیام امن میں معاون ہیں۔وزیر اوقاف ومذہبی امور،صوبہ کردستان عراق
شرعی نصوص اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ معاشرتی امن ایک شرعی فریضہ ہے۔ سینئر عراقی فقہ اکیڈمی
وسطیت کو اعتدال پسند موقف اختیار کرنے کے لئے کوشش،طرز عمل، کام اور جرأت کی ضرورت ہے۔شیعہ مراجع کے ترجمان
علمائے اسلام آپ کے ذمہ دارانہ اقدامات کے لئے بے چین ہیں۔سربراه ،شيعہ اوقاف انتظامیہ
رابطہ صفوں میں اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کے استحکام کی خواہش مند ہے خاص طور پر عراق میں۔سربراه ،سنی اوقاف انتظامیہ
ہم محبت اور یکجہتی کے پُل تعمیر کرنے کے لئے اس بابرکت فورم کے منتظر ہیں۔صدر جمعیت علمائے کردستان،عراق
مکہ مکرمہ:
مکہ مکرمہ کے مقدس سرزمین پر ایک تاریخی فورم کا انعقاد ہوا جس میں عراق سےتعلق رکھنے والے تمام نامور اور بااثر دینی مراجع پہلی مرتبہ ایک میز پر جمع ہوئے۔یہ تمام حضرات رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کی دعوت پر متحدہ موقف اختیار کرنے اور فرقہ واریت، نفرت اور تصادم کے بیانئے کو رد کرنے کے لئے جمع ہوئے۔
فورم کے شرکاء نے اعلامیہ جاری کیاجس میں انہوں نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود اور ا ن کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہما اللہ کاپُر امن بقائے باہمی اور تہذیبی مکالمے کے فروغ کے لئے اقدامات اور عالمی سطح پر خصوصاً عراق میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کے سدّ باب کے لئے ان کی گراں قدر خدمات کو سراہا۔شرکاء نے اس موقع پر رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کا بھی اس احسن اقدام پر شکریہ ادا کیا ۔
اعلامیہ میں میثاق مکہ مکرمہ کو فعال کرنے،ابھرتے اور جدید مسائل سے نمٹنے کے لئے علماء کےدرمیان تعمیری مکالمہ اور مثبت رابطوں کے چنیلز کھولنے کی ضرورت پر زور دیاگیا اور اس فورم کو اس کا نقطۂ آغاز بنانے کی خواہش کا اظہارکیا گیا۔شرکاء نے ان مشترکہ اقدار کے فروغ پر بھی زور دیا جس پر شریعت اسلامیہ نے وطن کی تعمیر اورشہریت کے حصول کے لئے روادری،پُر امن بقائے باہمی،احترا،م اعتدال پسندی کے جذبات کو ابھارنے کی تاکید کی ہے اور انتہاپسندی اور غلو کو مسترد کیا ہے۔
شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مذہبی اور ذرائع ابلاغ کے بیانئے میں اتحاد ،یکجہتی،قومی تشخص کے تحفظ اوراس کے تعمیر کو یقینی بناتے ہوئے دہشت گردی کو مسترد اور تشدد کی تمام صورتوں کی مذمت کی جائے۔
شرکاء نے کہاہے کہ مذہبی فتاوی میں اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ وہ مقاصد شریعت کی پانچوں ضروریات کومحفوظ بنائیں چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر ،جو اسلامی اور انسانی مشترکات کو تحفظ فراہم کریں۔
اعلامیہ میں اسلامی معاشرے کے اجزاء دیگر مذاہب اور ادیان کے ساتھ تہذیبی روابط کے لئے اتھارٹی کے قیام کی بھی سفارش کی گئی ہے اور ایک مشترکہ رابطہ کمیٹی کے قیام کی بھی سفارش کی گئی ہے جو عراقی مراجع اور رابطہ عالم اسلامی کے نمائندوں کو شامل ہو اور وہ کمیٹی فورم کے نتائج اور مستقبل کے اقدامات کا جائزہ لے اور طے شدہ اہداف کے حصول کے لئے امور کا جائزہ لے۔
فورم کے افتتاحی تقریر میں ڈاکٹر العیسی نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ایک دین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر کسی کی مسلکی خصوصیات کو تسلیم کرتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین مخلصانہ محبت کے تناظر میں برادرانہ اتفاق رائے، تعاون اور مکمل یکجہتی ہے، اور جیسا نفرت انگیز فرقہ واریت پھیلانے والوں کے ذہن میں ہے حقیقت میں الحمد للہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ سوچ دوسروں سے زیادہ خود ان پر وبال ہے، اور سب کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ اس طبقے کی مذہبی اور قومی اقدار پر حملہ آور گروہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ہے، جنہوں نے سچائی سے گریز کیا اور گمراہ ہوئے خاص طور پر وہ لوگ جو تکفیر، تصادم اور تنازعات کے بھول بھلیوں میں گم ہوگئے۔
ڈاکٹر العیسی نے کہاکہ: اس سرزمین مقدس مکہ مکرمہ میں جہاں ان کا جامع قبلہ ہے دین ،مشن، اقدار اور اہداف کے رشتوں کا ملاپ ہورہاہے۔وہ ایسے پیارے ملک سے آئے ہیں جس کی بنیاد میں عظمت ہے، اور تاریخ کے ابواب میں اس کے انمٹ نقوش ہیں ،عربیت ،اسلام اور انسانیت کے عراق سے، ثقافتی نمونے سے لبریز تنوع اور تعددیت والے عراق سے ..اسلام کی خوبیاں اور اس کی اعلی مقاصد ان میں پیوست ہیں، وہ ایسے علمی مینار ہیں جن میں وسعت ہے اور جو مرجعیت انہیں حاصل ہے وہ تحسین اور قابل ستائش ہے۔
ڈاکٹر محمد العیسی نے عراق کے نامور علمائے کرام اور دینی مراجع سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ جی ہاں ہر علم اور فکر جمع کرتاہے،منتشر نہیں کرتا،جوڑتاہے،متنفر نہیں کرتا،وہی نافع علم ہے جس کے اہتمام کی ضرورت ہے،اور آپ اس کے اہل اور اصل مستحق ہیں،اور یہ ہم آہنگ روحیں اپنی راسخ علم وفہم کے ساتھ اس پاک سرزمین کی مہک سے تبرک اور محبت کے لئے جمع ہوئی ہیں،جس کی خدمت کا اعزاز مملکت سعودی عرب کو حاصل ہے،جيسے کہ اسے اسلام، مسلمان اور تمام انسانیت کی بھلائی کے لئے کوششوں کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اللہ تعالی جزائے خیر عطافرمائے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعوداور ان کے ولی عہد امین شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز آل سعود کو جو خدمات انہوں نے پیش کی ہیں اور جو وہ پیش کررہے ہیں اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے، انہیں مزید توفیق ورہنمائی عطا فرمائے۔
عراقی صوبہ کردستان کے وزیر اوقاف ومذہبی امور عزت مآب ڈاکٹر بشتوان صادق عبد اللہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ عراقی کردستان کی حکومت نے نئے ترقی پسند وفاقی عراق کی تعمیر میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور اس ضمن میں اس نے آئین وضع کیا ہے جس میں عراق میں موجود تمام اجزاء کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کردستان سب کے لئے محفوظ پناہ گا ہے اور اس کی بڑی وجہ وہاں کی بہتر زندگی ،پر امن بقائے باہمی اور تمام مذاہب اور ادیان کے حقوق کا احترام ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مملکت سعودی عرب میں اس طرح کے پروگرام اور فورم کے انعقاد سے قیام امن میں معاونت ہوگی،انہوں نے کہاکہ اس نمایاں کردار سے عراقی صفوں کو متحد کرنے میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
انہوں نے تمام مسالک اور دینی مراجع کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور بھائی چارے کے فروغ اور نفرت کے خاتمے کے لئے ڈاکٹر محمد العیسی کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو سراہاہے ۔
عراقی فقہ اکیڈمی کے سینئر فضیلۃ الشیخ علامہ احمد حسن الطہ نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شرعی نصوص سے یہ واضح ہے کہ معاشرتی امن ایک شرعی فریضہ ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور یہی دنیا اور آخرت میں نجات کاراستہ ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا ، اسے زمین پر خلیفہ مقرر فرمایا اور اسے اس زمین کی تعمیر کی ذمہ داری سونپ دی۔زمین کی تعمیر نو صرف ایک محفوظ ماحول ہی میں ممکن ہے جہاں انسان کا دین اس کا جان ومال اور آبرو محفوظ ہو۔ لہذا اہل عقل ودانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن وسلامتی میں رخنہ ڈالنے والی چیزوں سے اجتناب کریں اور ان عناصر کے خلاف متحد ہوکر صف بستہ ہوں جو لوگوں خوف زدہ اور ان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش اور تشدد اور انتہاپسندی کو ہوا دینا چاہتے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہاکہ شریعت اسلامیہ ایسے مقاصد کے ساتھ آئی ہے جن میں لوگوں کے مصالح کو یقینی اور ان سے برائی کو دور کرنا مقصود ہے اور شریعت نے ان ضروریات کو محفوظ بنایا ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کی بقا محال ہے، جس میں دین، جان، عقل ،مال اور آبرو کا تحفظ شامل ہے ،اور شاید سب سے اعلی مقصد جس میں یہ تمام مقاصد جڑتے ہیں وہ امن ہے، اور شايد سب سے مضبوط حق جو تمام جزوی حقوق کو یقینی بناتاہے وہ پُر امن زندگی کا حق ہے۔اسی ضرورت کے تحت شرعی احکام میں معاشرتی امن کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جو براہ راست ان مقاصد کے حصول اور ان ضروریات کے تحفظ کے لئے لازمی ہیں۔آج ہم اپنے ملک اور علاقائی ماحول میں جن تنازعات اور فتن کا مشاہدہ کررہے ہیں، جہاں یقیناً ان کے بیرونی اسباب میں مگر وہاں داخلی اسباب بھی مضمر ہیں ، جس میں دانش مندی کی کمی،مذہبی مباحثوں میں حکمت کی کوتاہی اور باہمی اختلافات کے احترام کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج عراق کو متحدہ موقف اختيار كرنے،اتحاد اور نیکی اور تقوی میں تعاون اور عوامی مفادات کو ترجیح دینے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے اور موجودہ دردناک صفحات کو پلٹ سکیں اور روشن ماضی کو زندہ کرسکیں۔
انہوں نے شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہ اللہ کی قیادت میں مملکت سعودی عرب کی علاقائی اور بین الاقوامی امن کے فروغ اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں کوششوں کا تذکرہ کیا، اور اس کی زندہ مثال 2006 میں میثاق مکہ ہے جس کے ذریعے زخمی عراق میں خونریزی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور پھر 2017 میں کوآرڈنیشن میٹنگز کے ذریعے اسے مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی ۔
انہوں نے دعاکرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالی مملکت سعودی عرب کے بادشاہ،حکومت اور عوام کو ہر طرح کی بھلائی ، خوشحالی اور ترقی سے نوازے۔
اس کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور بحرانوں پر قابو پانے کے لئے تعاون پر رابطہ عالم اسلامی کی کوششوں کو بھی سراہا۔
جناب محمد علی محمد علی بحر العلوم، سپروائزر ،انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر فار گریجویٹ اسٹڈیز، اور شیعہ مراجع کی جانب سے ترجمان نے اپنے خطاب میں اس امید کا اظہار کیا کہ آج کا یہ اجلاس ہماری تاریخ،ہماری امت اور معاشرے کی تعمیر میں ایک چھوٹی سی اینٹ ثابت ہو،انہوں نے کہاکہ ہم اہل عراق کا غم اٹھائے ہوئے ہیں ، جو غم تمام اہل عراق کے سینوں میں ہے، یہی وہ غم ہے جسے اٹھانا ہماری ذمہ داری اور اور اس کا ازالہ ہمارا فریضہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس امت کو جس بہترین وصف سے تعبیر کیا گیا ہے وہ اعتدال پسندی ہے، جیساکہ قرآن میں اس کا ذکر ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ وسطیت کو اعتدال پسند موقف اختیار کرنے کے لئے کوشش،طرز عمل، کام اور جرأت کی ضرورت ہے۔اگر اختلاف ایک حقیقت ہے تو اس کا حل بھی امت وسط کے لئے قرآن کریم نے تجویز کیا ہے جس کا مفہوم امتیاز ،وسعت اور دوسروں کے لئے گنجائش پیداکرنا ہے۔
اسی تناظر میں جناب ڈاکٹر حید حسن جلیل الشمری، سربراہ شیعہ اوقاف انتظامیہ نے کہاکہ علمائے اسلام آپ کے ذمہ دارانہ اقدامات کے لئے بے چین ہیں اور وہ ان پروگرام اور ان کے اعلان کردہ اہداف پر عمل در آمد کی صلاحیت کی تائید کرتے ہیں ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ فرزندانِ اہل سنت والجماعت ہمارا حصہ ہیں، جیساکہ جناب سیستانی نےکہاہے ۔اس طرح ہم مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی ہر کوشش کو ناکام کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلمان-اہل سنت اور اہل تشیع میں سے- وہ ہے جس نے اللہ تعالی کی الوہیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی ہو، اور اس گواہی کے ذریعے اس کی جان کو تحفظ حاصل ہے اور مسلمانوں کے حقوق اس کو حاصل ہیں۔
جناب ڈاکٹر سعد حمید کمبش ، سربراہ سنی اوقاف انتظامیہ نے نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے کہ ہم رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر یہاں جمع ہوئے جبکہ رابطہ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی بھائی چارے کے فروغ کے لئے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور متحدہ موقف اختیار کرنے میں تعاون کرے اور ان کی یہ کوشش عراق میں نمایاں ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد امین کی قیادت میں اسلامی دنیا اور خصوصاً اہل عراق کی خدمات کے لئے ہم مملکت سعودی عرب کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
جناب شیخ ڈاکٹر عبد اللہ سعید ویسی، صدر جمعیت علمائے کردستان نے اپنے خطاب میں کہاکہ عراق کو تہذیبوں، علم اور علماء کے ملک کے طور پر جانا جاتاہے،جس نے انسانیت کو پڑھنا اور لکھنا سکھایا اور اسے زراعت اور صنعت کا ہنر سکھایا۔
انہوں نے کہاکہ کردستان میں آپ کے بھائی قومی، دینی اور مذہبی تنوع کے باوجود ہر بھلائی میں پیش پیش رہے یہاں تک کہ وہ ہر سطح پر ایک مثال بن گئے۔انہوں نے کہاکہ صوبے میں مذہبی ادارے معاشرے کی خدمت اور عوامی مفادت کی بنیاد پر تمام طبقات کے درمیان روابط اور تعاون کے اصول پرتوجہ مرکوز کی ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس بابرکت فورم میں جو مبارک مقام پر منعقد ہورہاہے ، ہم اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے محبت اور یکجہتی کے پل تعمیر کرنے کے لئے کاوشوں کے منتظر ہیں ۔
اجلاس کے اختتام پر عراقی دینی مراجع کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کو مسالک اور مراجع کو ایک دوسرے کے قریب لانے، بھائی چارے کے فروغ اور نفرت کے خاتمے کے لئے فورم کے انعقاد پر ان کی کوششوں کے اعتراف میں اعزاز سے نوازاگیا ۔