عالمی چیلنجز کے مقابلے کے لئے، فورم نے دینی،  سیاسی اور  فکری شخصیات کو جمع کیا

عالمی چیلنجز کے مقابلے کے لئے، فورم نے دینی، سیاسی اور فکری شخصیات کو جمع کیا

جامع شہریت کے موضوع پر منعقدہ  ”ویلٹن پارک  “فورم  کے  مرکزی مقرر ڈاکٹر العیسی اظہارخیال کرتے ہوئے :انسانی مشترکات اختلاف کی ناگزیری اور حقوق کے تحفظ پر متفق ہیں۔

  • مذہبی اور نسلی تنوع کی ہم آہنگی کی ضرورت کے خلاف منفی شعور  شہریت کی جامعیت کے لئے چیلنج ہے۔
  • نظری معاہدات محض رہنما ہدایات ہیں جن کے لئے مؤثر عملی پروگرام کی ضرورت ہے۔

لندن:

رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے اپنے بیان میں کہاکہ :آج دنیا کو ایسی نسل کی ضرورت ہے جس کی تربیت اس طرح ہو کہ اسے معلوم ہو کہ کیسے سوچا جائے اور کس طرح دوسروں کو قبول اور احترام دیاجائے۔ انہیں  اس بات کا محکم یقین ہو کہ اختلاف اور تنوع بشری تقاضاہے۔

عزت مآب سیکرٹری جنرل نے ان خیالات کا اظہار برطانوی حکومت کے تعاون سے  ”ویلٹن پارک  “میں  ”جامع شہریت کے فروغ  “کے موضوع پر منعقدہ تین روزہ فورم  میں کیا  جس میں بڑی تعداد میں دینی سیاسی اور  فکری  شخصیات  نے شرکت کی۔

فورم کے  افتتاحی اجلاس سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری  جنرل نے  فورم کے  توجہ کا مرکز جامع شہریت کے فروغ  کے لئے   ایسے قومی   فضا پیدا کرنے   کی ضرورت  پر زور جس میں  قومی  ریاست کے لئے تمام تہذیبی  مفاہیم دستیاب ہوں، کے موضوع پر اہم مسائل  زیر بحث لانے  پر فورم کی تعریف کی۔

ڈاکٹر العیسی نے زور دیتے ہوئے کہاکہ  ہم سب کی اجتماعی مشترکات   احترامِ انسانیت   کی حفاظت پر متفق ہیں اور اسی طرح قانون اور آئینی  فریم ورک میں   اس کے حقوق  اور جائز آزادی  پر متفق ہیں۔اسی  طرح  اختلاف اور تنوع کی نوعیت کو  فطری ناگزیر امر  سمجھنے کی اہمیت  پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی نے  بنی نوع انسان کو ایسے ہی پیدا کیا ہے۔پھر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعارف  ،تفاہم ،تقارب اور  تعاون کے لئے  مکالمہ کا طریقہ سکھایا۔ارشاد باری تعالی ہے: ”اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طریقے کا پیرو بنادیتا  اور وہ ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے البتہ  جن پر تمہارا پروردگار رحم فرمائے گا اور اسی کے لئے اس نے انہیں پیدا کیا ہے“۔

ڈاکٹر العیسی نے مزید کہاکہ : اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف اور متنوع پیدا فرمایا ہے اور اگر وہ چاہتا تو انہیں ایک ہی امت بناتا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان منفی اختلافات جاری رہیں گے  اور اس کا لحاظ صرف وہی رکھیں گے اور اس سے تجاوز نہ کریں گے جنہیں اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے شعور بخشاہے۔

خالق کی حکمت تنوع اور تعدد میں ہے ۔انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ  آیت کریمہ میں  اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ  تعالی نے انسان کو اس تنوع کے لئے پیدا فرمایا ہے۔اور یہ ہمیں   حکمتِ الہیہ  اور اس  میں موجود امتحان  اور  آخرت میں اس کے جزا میں   تامل کی دعوت دیتاہے  اور اگر انسان کی خلقت اس طرح نہ ہوتی تو  وہ ملائکہ کی  طرح کوئی اور مخلوق ہوتی جو اللہ کے حکم سے ایک ہی ڈگر پل چل رہی ہوتی۔

عزت مآب ڈاکٹر محمد العیسی نے جامع شہریت کو  در پیش چیلنجز کا بھی تذکرہ کیا۔اس میں  سرِ فہرست  آگہی  کافقدان ہے جو عموماً   منفی خاندانی اور تعلیمی   ماحول  اور منفی عوامی ثقافت  سے  جو مذہبی ،سیاسی ،قانونی اور سول سوسائٹی کے اداروں  کے بیانات  سے پیدا ہوتاہے اور ہر ملک  کےوژن ،مشن اور مقاصد  میں منصفانہ اقدار کی دستیابی کی سطح  سے   جبکہ خاندانی اور تعلیمی پہلو اس کے علاوہ ہے۔

ڈاکٹر العیسی نے اپنے بیان کے سیاق میں جامع شہریت کے موضوع پر   اس اہم اور حقیقی  سوال  کو سامنے رکھا کہ  :اگر ہر معاشرے کے لئے  شہریت اتنی ہی ضروری ہے  اور اس کے متعلق فیصلہ سازی کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ، تو  آج دنیا میں مطلوبہ مقدار میں کیوں عمل نہیں کیا جارہاہے؟ انہوں نے اپنے سوال کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ :اگر شہریت میں رخنہ انداز اپنی سنگین غلطی کو محسوس کریں  صحیح نتیجہ سے منسلک اخلاقی نظریہ کی منطق کے مطابق  ایسے وقت میں کہ  جب وہ پائیدار مفادات کی تلاش میں ہیں  تو اس غلط راہ  چلنےپر ان کا کوئی فائدہ نہیں۔تو وہ ایسا جان بوجھ کر اور بضد ہوکر نہیں کریں گے۔

عزت مآب نے مزید کہاکہ: اس کا جواب تین چیزوں میں مضمر ہے:

1-عدالت اور اقدار کے  اصولوں کے مقابلے میں  ذاتی مفادات کا غلبہ  ،چاہے وہ فردی ہوں یا جماعتی ۔یہ یقینا دور اندیشی نہیں اور اس کا انجام نقصان پر ہی ہوگا۔

2-بعض لوگ پراگمینزم ( مفاد پرستی )کو  غلط  جان کر بھی ،اگر اس سے قوم ،مذہب یا نظریہ کا غلبہ ہورہا ہو تو  اسے  اہم قدر جانتے ہیں ۔جبکہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خالق کی تعلیمات نے اس مشق کو مسلط کیاہے۔اس طرح اپنی رائے عقائد اور ثقافت کو دوسروں پر مسلط کرنے کا یقین پیدا ہوتاہے۔ان غلط اور خطرناک اعتقادات کی وجہ سے انسانی تاریخ نے کچھ سخت  جنگوں کا نقصان  بھی برداشت کیا ہے۔

3-پسماندگی اور کرپشن اپنی مختلف صورتوں کے ساتھ اور پروپیگنڈا اور اشارات کے ذریعے ان کا فروغ

خصوصاً دینی جو کہ  منطق کے بجائے جذباتی پیغامات بھیجتے ہیں۔کیونکہ وہ در اصل حقیقت سے عاری ہوتے ہیں جس سے یہ مسئلہ پیدا ہوتاہے کہ  یہ پیغامات جسے موصول ہوتے ہیں اسے یہ یقین ہوجاتاہے کہ وہ خدا تعالی کا نمائندہ ہے ۔اور پھر وقت کے گذرنے کے ساتھ   انسانی فہم وشعور پر حملوں کے نتیجے میں یہ  عمومی تہذیب اور معاشرتی  سوچ بن جاتی ہے۔

انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہاکہ :ان سب کے بعد یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ  آیا اس سلسلے میں کوئی معاہدہ کارگر ہوگا  جیساکہ اس فورم  میں ہم اسی پر گفتگو کررہے ہیں   جس میں خوبصورت الفاظ ومعانی  تو ہوں مگر  بغیر مؤثر حکمت عملی کے؟انہوں نے زوردیتے ہوئے کہاکہ    :ہماری دنیا میں جامع شہریت  کے مسائل میں بہت سارے اسباب مخفی ہیں جن میں کچھ آسان او رکچھ پیچیدہ ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تشخیص کی جائے اور جڑوں  سے ان کا علاج کیا جائے اور اور اس علاج کے طریقہ کار کو تلاش کیا جائے۔اس کے ہمراہ  اس سلسلے میں  مثالی عالمی  نمونوں کو پیش کیا جائے۔اور اس کی کامیابی اور جامع شہریت کے تجربے اور مذہبی اور نسلی تنوع کے مثبت انضمام  کے رازوں پر سے پردہ اٹھایاجائے۔

رابطہ عالم اسلامی کے عزت مآب  سیکرٹری جنرل  سمجھتے ہیں کہ جامع شہریت کے مسئلے کی بنیاد اجتماعی ثقافت  سے مربوط ہے اور اس کے لئے ہر معاشرے کی مناسبت سے مؤثر عملی پروگرام کی ضرورت ہے۔انہوں نے زوردیا کہ آج دنیا  کو ایسے نسل کی ضرورت ہے جو اس نہج پر تربیت حاصل کرے  کہ انہیں کیسا سوچنا چاہئے اور ان میں دوسروں کے احترام اور انہیں قبول کرنے کی  صلاحیت ہو۔اور انہیں یہ یقین ِ  محکم  ہو کہ اختلاف اورتنوع ایک فطری اور طبعی امر ہے  اور   دوسروں کے ساتھ  سلوک میں  وقار  کے ساتھ پیش آئے اور  پر امن بقائے باہمی اور  تعاون کو یقینی بنائے۔

عزت مآب سیکرٹری جنرل نے کہاکہ: کتنا ہی اچھا ہے  کہ تمام اہل وطن  کسی قومی تقریب میں   ایک وطن کے جھنڈے کے سائے تلے ایک دوسرے سے قریب ہوں   اور یہ شعور رکھتے ہوں کہ اختلاف کا مطلب ہرگز نفرت اور مخالف کو دور کرنا نہیں ہے۔اسی طرح شہریت  کے پروگرام میں یہ ضروری ہے کہ اس کی تعمیر ایسے اخلاقی ڈھانچے پر ہو  جو سب کو شامل ہو۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ :اس منبر سے ہم انسانی ہم آہنگی یا  انسانی خاندان کو خوش آمدید کہتے ہیں  جو ہم پر قدرت کی طرف سے فرض کردہ اخوت کے معانی کو بھول چکے ہیں۔وہ چاہے مانیں یا انکار کریں مگر انسان انسان کا بھائی ہے ۔کیا ہی بہتر ہو کہ یہ   یکجہتی سب کو شامل ہو

ہم اسے روحانی یا ابراہیمی نظام سے بالا ہوکر دیکھیں  تاکہ ہم  گروہ بندی اور مخالف کو دور کرنے کی ممانعت سے  بچیں ۔اور روحانی  شخصيات كو اپنے  متعلقہ لوگوں سے اخوت یکجہتی اور ایمانی تعلق کے لئے مخصوص فریم بنانے کی ضرورت ہے  ۔انسانی یکجہتی کے منصوبے میں ابراہیمی نظام کی قید سے زمین کی آبادی کا نصف حصہ ہم سے جدا ہوجاتاہے جبکہ مخصوص گروپوں  کو چاہے وہ ابراہیمی نظام کے تحت ہوں یا اس سے خارج انہیں انسانیت کے فائدے کے لئے پرامن بقائے باہمی اور عمومی انسانیت کی امن وسلامتی کے لئے بغیر کسی اور کو علیحدہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔

ڈاکٹر العیسی نے یاددہانی کراتے ہوئے کہاکہ ہم کسی اگلے پڑاؤ  پر جامع شہریت کے نظریاتی معاہدات کے ساتھ  مؤثر عملی پروگرامز پر مزید اہم محاور کو لے کر جمع ہوں گے ۔اس یقین کے ساتھ کہ یہ معاشرے کے امن ویکجہتی کی ضامن ہے جس کے سائے میں پوری دنیا   میں امن اور یکجہتی کو فروغ ملے گا ۔

 

Wednesday, 13 March 2019 - 08:37